
رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران ترسیلات زر 11 فیصد کم ہوکر صرف 16 بلین ڈالر رہ گئیں۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، جنوری 2023 میں پاکستان کو ورکرز کی ترسیلات زر 32 ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں، جو کہ 2 بلین ڈالر کے نشان سے نیچے آ گئیں۔ موصول ہونے والی ترسیلات زر 1.89 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 13 فیصد کم اور دسمبر 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد کم ہیں۔
کم آمد نے غیر ملکی قرضوں پر ملک کا انحصار بڑھا دیا ہے، جو پہلے ہی استطاعت سے باہر ہو چکا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں (جولائی تا جنوری 2023) میں ترسیلات زر 11 فیصد کم ہو کر 16 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 18 ارب ڈالر تھیں۔
جنوری 2023 میں زیادہ تر ترسیلات سعودی عرب (407.6 ملین ڈالرز)، متحدہ عرب امارات (269.2 ملین ڈالرز)، برطانیہ (330.4 ملین ڈالرز)، اور امریکہ سے (213.9 ملین ڈالرز) آئیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں تقریباً 270 روپے تک کمی کے بعد آنے والے مہینوں میں رقوم کی آمد میں بہتری آئے گی۔ 24 جنوری 2023 تک قدر میں کمی 225-230/ ڈالرز کے ارد گرد منڈلا رہی تھی۔
مزید برآں، اوورسیز پاکستانیوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ آئندہ ماہ رمضان المبارک میں تاریخی بلند افراط زر کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کو زیادہ رقم بھیجیں گے۔ تاریخی رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ ترسیلات عام طور پر رمضان اور عید کے تہواروں میں بڑھتی ہیں۔
خیال کیا جارہا ہے کہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں جیسے سرکاری چینلز کے ذریعے ترسیلات زر میں نمایاں کمی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک حصے کی وجہ سے ہے جو کہ غیر رسمی اور غیر قانونی چینلز جیسے کہ حوالا ہنڈی کے ذریعے اپنے رشتہ داروں کو رقوم بھیجنے کا انتخاب کررہے ہیں ۔
ترسیلات زر میں کمی نے ملک کے معاشی استحکام اور حکومت کو مالی امداد کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔