
عہد ساز شاعر مظفر وارثی کی لکھی نعتیں آج بھی سامعین پر سحر طاری کر دیتی ہیں
مظفر وارثی 23 دسمبر 1933 کو میرٹھ برّ صغیر میں صوفی شرف الدین احمد چشتی قادری سہروردی کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ اردو شاعری کا اہم ستون اور عہد ِ حاضر میں اردو نعت کا انتہائی معتبر نام ہیں۔آپ نے ہر صنف غزل،نظم،حمد،سلام و منقبت،گیت،قطعات اور ہائیکو میں طبع آزمائی کی۔اردو ادب کی تاریخ میں مظفر وارثی نعت گو شاعر کے طور پر مقبول ہیں۔انہوں نے نعتیہ شاعری کو کیف و مستی کی نئی طرز سے روشناس کرایا۔آپ کے معروف نعتیہ مجموعات میں باب ِ حرم،میرے اچھے رسول ؐاور دل سے در ِ نبی ؐ تک شامل ہیں۔آپ کو حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن ِ کاکردگی سے بھی نواز ا گیا۔مظفر وارثی طویل عرصہ تک رعشے کے مرض میں مبتلا رہے،علالت کے باعث 28 جنوری،2011 کو 77 برس کی عمر میں لاہور میں وصال پا گئے۔ان کے معروف حمدیہ اور نعتیہ کلام درج ذیل ہیں:
؎کوئی تو ہے جو نظام ِ ہستی چلا رہا ہے، و ہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے،نظر بھی جو آرہا ہے،وہی خدا ہے
؎میرا پیمبر ؐ عظیم تر ہے
کمال ِ خلاق ذات اس کی
جمال ِ ہستی حیات اس کی
بشر نہیں عظمت ِ بشر ہے
میرا پیمبر ؐ عظیم تر ہے
؎تو امیرؐ ِ حرم میں فقیر ِ عجم
تیرے گن اور یہ لب میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا تو کجا من کجا