
زندگی ایک بہت خوبصورت چیز ہے اسکو گزارنا نہیں جینا چاہئے مسلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم زندگی کی مشکلات سے تنگ آجاتے ہیں اور زندگی جینے کے بجائے وقت گزارنے کا ارادہ کرتے ہیں تب زندگی زوال کی طرف سفر شروع کرتی ہے اور یہاں سے ایمان کا امتحان شروع ہوتا ہےاور اللہ کے قرب یا دوری کے سفر کا آغاز ہوتا ہے- بات سمجھنے کی توجہ فرمائیں !
جہاں سے مشکلات اور زوال کا وقت شروع ہوتا ہے اصل امتحان صبر اور ایمان کا وہاں سے شروع ہوتا ہے تکلیف و پریشانی کی ابتدا کے ساتھ ہی صبر کے امتحان کی ابتدا ہو جاتی ہے
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان ناامیدی کے عالم میں زندگی جینا چھوڑ کر گزارنا شروع کر دیتا ہے-یہی سے وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کا رابطہ اللہ سے مظبوط ہو جاتا ہے یا پھر مکمل طور پر منقطع ہو جاتا ہے –
سوال یہ ہے کے نشانیان کیا ہیں اس بات کا تعین کرنے کے لئے کے رابط مضبوط ہو رہا ہے یا منقطع ؟ جواب دیتا ہوں غور فرمائیں !
پہلے رابطہ منقطع کی نشانیاں بتاتا ہوں
1 انسان روزمرہ زندگی میں مشغول ہو جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ دنیاں کی زندگی کے علاوہ بھی کوئی زندگی ہے جیسے آخرت کہتے ہیں سیاہ سفید کا فرق بھول جاتا ہے
2 اور مال اولاد بیوی کی چاہت میں حلال حرام کی تمیز بھول جاتا ہے مشکلات کو دنیاوی مال سے ختم کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے
3 اللہ کے ساتھ رابطہ مضبوط کرنے کے بجائے لادینیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور ایک سیکولر انسان بن جاتا ہے
4 اپنے اعمال کی فکر چھوڑ دنیا کی فکر میں زندگی دن رات مشن کی طرح کام میں لگ جاتا ہے اور زندگی گزارتا ہے جینا چاہے گا تب بھی گزارا ہو گا خوشیاں چاہ کر بھی نہ حاصل کر پائے گا
اب اللہ سے رابط قائم کرنے می نشانیاں بتاتا ہوں
1 اللہ سے رابطہ درست معنوں میں اس وقت قائم ہوتا ہے جب رجوع اللہ سے کیا جائے رجوع انسان تکلیف و پریشانی میں ہی کرتا ہے ورنہ رجوع کی وجہ کوئی نہیں
2 اپنی پریشانیوں کا اللہ کے سپرد کر کے اللہ کی خوشنودی کے لئے کام کیا جائے اسے راضی کرتا ہے خدمت خلق کے جذبہ سے انفاق فی سبیل اللہ
اللہ سے بات کی جائے اپنے دل کو اللہ کا گھر سمجھ کر اللہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش ک
کرتا ہے دل ہی دل میں یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اسکی باتیں سن رہا ہے
3 اپنے کام اللہ کے سپرد کر کے اس پر توکل کرتا ہے عبادت گزار اور برگزیدہ بندوں میں شمار ہو جاتا ہے
اور اللہ تعالی اسکی مشکلات ختم کر دیتا ہے اور وہ پریشانی سے نکل کر زندگی گزارنے کے وقت سے زندگی جینے کی طرف واپس آ جاتا ہے
پریشانیاں ہی تکلیف دیتی ہیں اور تکلیف سے زخم بنتے ہیں زخموں کی دوا ہوتی ہے دوا محض دعا ہوتی ہے قبول اسکی ہوتی ہے جسکی نیت پاک ہوتی ہے جو کرتا ہے غنڈہ گردی اختیار کرتا ہے اللہ سے دوری کرتا ہے بہانے دیکھاتا ہے تیور دیکھتا رجوع اللہ سے وہ نہیں کرتا زندگی جیتا نہیں بس گزارتا ہے اور جیساکے ابتدا میں کہا میں نے زندگی جینے کا نام ہے گزارنے کا نہیں
انہی زندگی گزارنے والوں کے نام کیسی شاعر نے یہ شعر لکھا ہے کہ!
زندگی جبر مسسل میں کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا کاٹی ہے یاد۔ ہیں –
اور زندگی جینے والے کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بندے تو گناہ گار ہیں رحمان ہے موالا
بندوں پہ کرم کرنا تیری شان ہے موال